محل تبلیغات شما

علی محمد محمدی بلتستانی



شیخ عبدالله علایی

شیخ عبداللّه علایلی از علمای سنی لبنان درباره قیام امام حسین علیه السلام می نویسد: برای همه متفکران مسلمانِ آن روزگار، ثابت شده بود که یزید با توجّه به اخلاق خاص و تربیت مشخص آن چنانی، شایستگی در دست گرفتن زمام جامعه اسلامی را ندارد. برای هیچ مسلمانی سکوت در آن موقعیّت هرگز جایز نبود و وظیفه آنان مخالفت و اعتراض آشکار بود. در این صورت قیام حسین علیه السلام در حقیقت اعلام نامزدی خود برای حکومت نبود؛ بلکه ذاتا و بیش از هرچیز این کار اعتراض به ولایت یزید به شمار می رود. گواه این ادعا گفتار خود امام حسین علیه السلام است به ولید وقتی از امام حسین علیه السلام درخواست کرد که با یزید بیعت کند. حضرت فرمودند: یزید فاسقی است که فسقش نزد خدا آشکار است».

 

توفیق ابوعلم

توفیق ابوعلم، از علمای معروف اهل سنت مصر، در تحلیل نهضت عاشورا و قیام امام حسین علیه السلام می نویسد: . امام حسین علیه السلام قصد کربلا کرد تا از یک سو دست به قیام بزند و از سوی دیگر از بیعت با یزید خودداری کند. هرچند برای او روشن بود که این قیام و امتناع از بیعت با یزید منجر به قتل او خواهد شد؛ زیرا اگر او با یزید بیعت می کرد یزید در صدد به وجود آوردن تغییرات اساسی در دین اسلام بر می آمد و بدعت های زیادی را بنا می نهاد. به همین دلیل است که گفته اند: حسین خود و خانواده و فرزندانش را فدای جدش کرد و ارکان حکومت بنی امیه هم جز با قتل او متزل نمی شد. بنابراین حسین برای طلب دنیا و مقام و. قیام نکرد؛ بلکه می خواست احکام خدا را به اجرا درآورد».

 

خالد محمّد خالد

خالد محمّد خالد، از علمای اهل سنت مصر، قیام امام حسین را صرفا برای حفظ دین اسلام معرفی کرده، می نویسند:امام حسین علیه السلام برای حفظ دین دست به فداکاری زد. از آن جا که اسلام پایان بخش و در یک کلمه عصاره همه ادیان است، لذا حفظ آن هم از اهم کارهایی است که مؤمنان باید بدان اهتمام بورزند. تلاش های صادقانه پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم و ائمه اطهار علیه السلام و اولیای بزرگوار همه و همه برای حفظ این دین بوده است. بنابراین موضوعِ قیام عاشورا نیز حفظ دین بود؛ چرا که در آن زمان نیاز زیادی به حفظ دین احساس می شد. پس امام علیه السلام برای انجام دادن امور عاطفی یا حتی کمک به دیگران فداکاری نکرد؛ بلکه هدف اصلی او فداکاری برای حفظ دین خدا بود».

 

محمدعلی جناح

محمدعلی جناح، رهبر فقید پاکستان، می گوید: هیچ نمونه ای از شجاعت، بهتر از آنچه امام حسین نشان داد در عالم پیدا نمی شود. به عقیده من تمام مسلمین باید از شهیدی که خود را در سرزمین عراق قربان کرد، پیروی نمایند».

 

عباس محمود العقّاد

عباس محمود العقّاد نویسنده و ادیب بزرگ مصری، می نویسد: جنبش حسین از بی نظیرترین جنبش های تاریخی است که تا کنون در زمینه دعوت های دینی یا نهضت های ی پدیدار گشته است. دولت اموی پس از این جنبش به قدر عمر یک انسان طبیعی دوام نیافت و از شهادت حسین تا انقراض آنان بیش از شصت و اندی سال نگذشت».

 

عبدالرحمن شرقاوی

عبدالرحمان شرقاوی نویسنده مصری می نویسد: حسین علیه السلام شهید راه دین و آزادگی است. نه تنها شیعیان باید به نام حسین ببالند، بلکه تمام آزادمردان دنیا باید به این نام شریف افتخار کنند».

 

عبدالحمید جُودَة السَّحار

عبدالحمید جودة السّحار، نویسنده مصری، می گوید: حسین علیه السلام نمی توانست با یزید بیعت کند و به حکومت او تن بدهد، زیرا در آن صورت بر فسق و فجور صحه می گذاشت و ارکان ظلم و طغیان را محکم می کرد ونسبت به فرمان روایی باطل تمکین می نمود. امام حسین به این کار راضی نمی شد، گرچه اهل و عیالش به اسارت افتند و خود و یارانش کشته شوند».

 

العُبَیدی

العُبَیدی مفتی موصل می گوید: فاجعه کربلا در تاریخ بشر نادره ای است، هم چنان که مسببّین آن نیز نادره اند. حسین بن علی علیه السلام سنت دفاع از حقِ مظلوم و مصالحِ عموم را بنا بر فرمان خداوند در قرآن وظیفه خویش دید و در انجام دادن آن تسامحی نورزید. هستی خود را در چنین قربانگاه بزرگی فدا کرد و بدین سبب نزد پروردگار سرور شهیدان»محسوب شد و در تاریخ پیشوای اصلاح طلبان به شمار رفت. آری، به آنچه خواسته بود رسید و بلکه به برتر از آن کامیاب گردید».

 

سید قطب

سید قطب می نویسد: ثمره نهضت حسین علیه السلام پیروزی بود یا شکست؟ در دایره و مقیاس کوچک ثمره این حرکت جز شکست چیزی نبود، ولی در عالم واقع حرکتی پرفروغ و در مقیاس بزرگ و وسیع پیروزی بود. هیچ شهیدی در سراسر زمین مانند حسین علیه السلام نیست که احساسات و قلب ها را قبضه کند و نسل ها را به غیرت و فداکاری بکشاند. چه بسیار از کسانی که اگر هزار سال هم می زیستند امکان نداشت عقیده و دعوتشان را گسترش دهند. ولی حسین علیه السلام عقیده و دعوتش را با شهادتش به کرسی نشاند. هیچ خطابه ای نتوانست قلب ها را به سوی خود سوق دهد و میلیون ها نفر را به سوی اعمال بزرگ بکشاند، مگر خطبه آخرِ حسین علیه السلام که با خون خود آن را امضا کرد و برای همیشه موجب حرکت و تحول مردم در خط طولانی تاریخ گردید».

 

محمد اقبال لاهوری

اقبال لاهوری (متوفای 1938 م) فلسفه عاشورا را در حریّت بخشی می داند. از دید اقبال، قیام امام حسین علیه السلام و یارانش برای حفظ آزادگی و گریز از بندگی طاغوت و غیر خدا و اثبات بندگی نسبت به خدا و برخوردار ساختن دیگران از آزادی در سایه تعبد الهی بود. وی این گونه می سراید:

در نوای زندگی سوز از حسین

اصل حریّت بیاموز از حسین

سپس اضافه می کند:

تا قیامت قطع استبداد کرد

موج خون او چمن ایجاد کرد

بهر حق در خاک و خون غلطیده است

پس بنای لا اله» گردیده است

و سپس درباره نتیجه قیام آن حضرت چنین می سراید:

خون او تفسیر این اسرار کرد

ملت خوابیده را بیدار کرد

تیغ را چون از میان، او برکشید

از رگ ارباب باطل، خون کشید

نقش الاّ اللّه» بر صحرا نوشت

سطر عنوان نجات ما نوشت.

 


پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی قدر ہے کہ

’حسین (ع) مجھ سے ہے اور میں حسین (ع ) سے ہوں۔‘

امام حسین (ع) کا انتخاب اللہ تعالی نے اپنے دین کی دائمی بقا کی خاطر فرمایا اور امامِ عالی مقام نے اللہ تعالی کی جانب سے دی گئی اس ذمہ داری کو یوں نبھایا کہ رہتی دنیا تک اللہ کا مقبول دین محفوظ کر دیا۔ ۱۰ محرم 6۱ ھ کی صبح تک مذکورہ بالا حدیث کے تحت امام حسین (ع) اپنے نانا (ص) سے تھے اور اسی خون آشام شام کے بعد نانا (ص) کی پہچان، حسین (ع) کے زریعے سے ہی ممکن پائی۔ امام حسین (ع) نے جلتی ہوئی زمین کو سجدے سے سجا کر اور نوکِ نیزہ پر کلامِ الہی کو سنا کر نانا سے کئے ہوئے وعدے کو نبھایا اور دینِ الہی کو تا شامِ قیامت سرفراز کر دیا۔ شامِ غریباں کے ہنگام کے بعد آپکے فرزند جناب علی زین العابدین (ع) اور آپکی ہمشیرہ جناب زینب (س) نے آپکے مشن کا بار اپنے کاندھوں پر سنبھالا اور اپنے معرکةالآرا خطبات اور دلسوز مراثی کے زریعے سے جہاں باطل کو بے نقاب کیا، وہیں مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ کر غمِ حسین (ع) منانے کی ایسی داغ بیل ڈالی، جسکا سلسلہ کل کائنات میں چودہ صدیوں سے ہنوز اسی شان و شوکت سے جاری ہے اور انشاءاللہ تا قیامت جاری رہے گا۔

دنیاکے ہر گوشے میں موجود ہر با ضمیر قوم اپنے محسنین کی یاد اپنے اپنے انداز میں مناتی ہے۔ عموماً کربلا کی یاد دنیا کے طول و عرض میں ماہِ محرم میں منائی جاتی ہے، مگر پاکستان کے شمالی علاقہ بلتستان میں اس عظیم واقعے کو شمسی تقویم کے تحت اسد کے مہینے میں بھی منایا جاتا ہے۔ اس مظہر کاتاریخی پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات تمام سال سردی کی لپیٹ میں رہتے ہیں اور عموماً ان علاقوں میں ماہِ محرم سردی کی شدت کے ایام میں آتا ہے۔ ان علاقوں کے مذہبی رہنماوں اورعلما ئے کرام نے عوام کی باہمی مشاورت سے ان ایام کو شمسی تقویم کے تحت ہجری تقویم کے ساتھ گرمی کے موسم میں بھی منانے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ محرم کا واقعہ شمسی تقویم میں ماہِ اسد میں پیش آیا تھا، سو کشمیر میں محرم کے علاوہ اسد میں بھی ایامِ عزا ءمنانے کے رواج نے فروغ پایا۔ یوں یہ سلسلہ کشمیر سے چل کر بلتستان آیا اور قریباً ایک صدی سے یہ عشرہءاسد تمام بلتستان میں مذہبی جوش و جذبے اور دینی حمیت کے ساتھ منا یا جاتا ہے۔ امسال بھی یہ عشرہ ۱۰ اسد تا16 اسد بمطابق یکم اگست تا سات اگست منایا گیا جسمیں بلتستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں مجالسِ عزااور ماتمی محافل منعقد ہوئیں، جن سے ملک کے جید علمائے کرام نے خطاب فرمایا۔ اسد عشرے کے سلسلے کا ایک ماتمی جلوس ۴ اگست کو سکردو کے نواحی گاﺅں گمبہ میں برآمد ہوا جسمیں دن بھر علمائے کرام نے مجالسِ عزا سے خطاب کیا اور بلتستان بھر کی قریباً ۳۵ ماتمی انجمنوں نے نوحہ خوانی اور سینہ زنی کی اور قریباً پچاس ہزار عزاداران نے پرسہ پیش کیا۔

اسی سلسلے کا بڑا جلوس ٧ اگست بمطابق ۱۶ اسد کو سکردو شہر میں بر آمد ہوا جسمیں سکردو، گلگت، ہنزہ، خپلو، گھانچے اور استور سے قریباً ۷۰ سے زائد ماتمی انجمنوں اورکم و بیش ڈیڑھ لاکھ عزادارانِ امامِ مظلوم نے شرکت کی اور نواسہءرسول (ع) کے حضور نذرانہءعقیدت پیش کیا۔ قراقرم اور ہمالیہ کے بلندوبالا پہاڑی سلسلوں کے دامن ’یا حسین‘ کی لافانی صداوءں سے گونجتے رہے اور اسلام کی فتحِ مبین کا ڈنکا بجاتے رہے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ یزید کے ارادے خاک میں مل گئے، حسین (ع) کے نانا کا دین آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا ااور ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑ بھی حسین (ع) کے علمدار عباس (ع) کے زیرِ دست ہیں۔

آن لائن اردو انٹرنیشنل میں جناب ذیشان مہدی نے بلتستان میں عزاداری کی تاریخ اس طرح لکھی ہے

ظہورِ اسلام سے قبل بلتستان (بالتی یول) کے لوگ پہلے زرتشتی مذہب، اس کے بعد بون چوس (تبت کا قدیم مذہب) اور اس کے بعد بدھ مت کے پیروکار تھے۔ بلتستان میں اشاعت اسلام کا سہرا عام طور پر امیر کبیرسید علی ہمدانی کے سر باندھتے ہیں تاہم ان کے بلتستان آنے کے تاریخی شواہد کسی کے پاس نہیں۔ سید علی ہمدانی کے کشمیر آنے کا ذکر 1373ء میں ملتا ہے جب وہ شاگردوں اور مریدوں کی بڑی تعداد کے ساتھ آئے تھے۔ بعض دیگر لوگ امیر کبیر سید علی ہمدانی کی بلتستان آمد کا دور 1437ء سے 1446ء بتاتے ہیں اور اسی دور کو بلتستان میں اشاعت اسلام کے ابتدائی دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس وقت سکردو پر غوتہ چو سینگے نامی راجہ حاکم تھا۔ تاہم اس سے قبل 1190ء میں مقپون ابراہیم نامی مسلمان راجہ کا نام بھی ملتا ہے۔ اس راجہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ شاید مصر کی طرف سے بھاگ کر بلتستا ن آیا تھا اور اپنی منفرد شخصیت کی بنا پر یہاں کا حاکم بنا۔ یہی راجہ بلتستان کے معروف راجہ خاندان مقپون کا بانی بتایا جاتا ہے۔ مقپون بوخا کے دور میں (1490ء سے 1515ء) میر شمس الدین عراقی بغرض تبلیغ اسلام سکردو آئے اور کئی مؤرخین نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اسی دور میں بلتستان میں باقاعدہ اشاعت اسلام ہوئی۔ مقپون بوخا کا بیٹا شیر شاہ خاص طورپر میر شمس الدین عراقی سے متاثر تھا اور اس نے ان کی مریدی اختیار کر لی تھی، بعد میں 1515ء میں جب وہ خود برسر اقتدار آیا تو اس نے اسلامی رسومات کے فروغ اور اشاعت اسلام کے لیے سرکاری وسائل فراہم کیے۔ اسی دور کو بلتستان میں عزاداری کا ابتدائی دور کہا جا سکتا ہے۔ بعد میں بلتستان کے معروف راجہ علی شیر خان انچن (1588ء تا 1625ء) کے دور میں دیگر علوم و فنون اور رسوم و رواج کے ساتھ ساتھ رسمِ عزاداری اور فن شاعری کو بھی عروج ملنا شروع ہو گیا۔

اندازہ لگایا جاتا ہے کہ میر شمس الدین عراقی نے خاص طور پر تشیع کی تبلیغ کی اور عزاداری کو بھی فروغ دیا۔ اسی نسبت سے یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ بلتی زبان و ادب نے یہاں سے نیا دور شروع کیا۔ اس سے قبل صدیوں سے بلتستان کی زبان بلتی میں شاعری ہو رہی تھی مگر یہ آزاد شاعری تھی۔ اس شاعری کو مقامی زبان میں خلو کہا جاتا ہے جو آج کل غزل کے لیے مستعمل ہے۔ بلتی زبان بلتستان، کرگل لداخ، بھوٹان، سکم اور شمالی نیپال میں مختلف بولیوں کی شکل میں بولی جاتی ہے جبکہ بھارت کے بعض شہروں اور چین کے چار مختلف صوبوں میں بھی اس زبان کے بولنے والوں کی کچھ تعداد کی موجودگی کا بتایا جاتا ہے۔ اس زبان کا رسم الخط 632ء میں اس وقت کے راجہ کے حکم پر تھونمی سامبھوتہ نامی ایک شخص نے ہندوستان جا کر سنسکرت کے مطالعہ کے بعد وضع کیا ۔اس کی ہندی کی طرح کی لکھائی ہے اور بائیں سے دائیں لکھا جاتا ہے۔ اشاعت اسلام تک یہ زبان اور رسم الخط پورے تبت میں رائج تھا اور اس کا ادبی ذخیرہ بھی مشترکہ تھا مگر تبلیغ اسلام کے ساتھ ہی بلتی زبان نے تبت سے الگ ہو کر اپنا الگ سفر شروع کیا۔ بہت جلد لوگوں نے اس زبان کے رسم الخط کو بھی بدھ مت کی نشانی سمجھ کر ترک کر نا شروع کیا جس کی وجہ سے یہ زبان بے قاعدگی کا شکار ہو گئی اور اس نے زبان کی سطح سے گر کر بولی کی حیثیت اختیار کر لی۔ بعد میں فارسی رسم الخط کو بلتی زبان کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ رسم الخط کے متروک ہو جانے کے باعث بلتی زبان کا ادبی سرمایہ بھی ضائع ہو گیا۔ اسی سبب 40ء تک کے بلتی شعر و ادب کا مستند ریکارڈ دستیاب نہیں البتہ 1736ء اور 1776ء کے دور کی کچھ فارسی/ بلتی تصانیف دستیاب ہیں، تاہم یہ طے ہے کہ اس دوران یہاں کی شاعری اپنا سفر طے کرتی رہی۔اشاعت اسلام کے بعد بلتی زبان کی بہت سی ادبی اصطلاحات فارسی کی جگہ فارسی زبان کی اصطلاحات نے لے لی۔ پہلے پہل بلتی غزل (خلو) کو مقامی اسلامی اصطلاح کے مطابق ”خدا پی خلو کہا گیا، اسی طرح نعت کو ”رسول پی خلو اور منقبت کو” امام پی خلو کہا جانے لگا۔ 40ء میں جب ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں سکردو کی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو یہاں کی شاعری نے بھی کروٹ بدلی اور اپنے سنہرے دور کا آغاز کیا۔ اس سے قبل یہاں کی شاعری زیادہ تر لوک گیتوں تک محدود تھی تاہم ان لوک گیتوں میں ہر قسم کے موضوعات کو شامل کیا جاتا تھا۔

40ء میں سکردو پر مپقون احمد شاہ حکومت کرتا تھا اور بعض بزرگوں کے مطابق اسی دور میں سکردو میں امام بارگاہ کلاں کے نام سے پہلی امام بارگاہ بنی جس کے بعد امام بارگاہ لسوپی اور امام بارگاہ کھرونگ تعمیر ہوئیں۔ پہلی امام بارگاہ کی تعمیر کے ساتھ ہی باقاعدہ عزاداری کا سلسلہ شروع ہوا اور امام بارگاہ سے تعزیے کا جلوس برآمد ہونے لگا۔ اس سے قبل مجالس حکمرانوں کے درباروں میں ہوتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مقپون راجاؤں نے عزاداری کے فروغ کے لیے ہر طرح کے وسائل فراہم کیے اور بہت سارے علما و ذاکرین اور شعرا کو اسی مقصد کے لیے جاگیریں عطا کر دیں۔ دستیاب تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس وقت ڈوگروں نے سکردو کی حکومت کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں لیا تو روز عاشور کے جلوس پر انہوں نے کسی قسم کی پابندی عائد نہ کی بلکہ انہوں نے عزاداری کے لیے خصوصی سہولیات فراہم کیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جب جلوسِ عزا امام بارگاہ کلاں کے نزدیک پہنچتا تھا تو ڈوگرہ فوج کا ایک خصوصی دستہ تعزیہ اور عَلم کو سلامی (گارڈ آف آنر) پیش کرتا تھا اور جلوس کے اختتام تک احتراماً اپنی سنگینوں کو سرنگوں رکھتا تھا۔ آزادی کے بعد بھی کافی عرصہ تک پاکستانی فوج عزاداری کے لیے خصوصی سہولیات فراہم کرتی رہی۔ آزادی کے بعد سکردو میں متعین ہونے والے فوجی یونٹ چھاؤنی سے اپنا الگ ماتمی دستہ بھی نکالتے تھے۔ 40ء میں ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں قید ہونے والے سکردو کے آخری راجہ احمد شاہ مقپون کے چار بیٹے حسین علی خان محب، لطف علی خان عاشق، ملک حیدر بیدل اور امیر حیدر مخلص نے کشمیر میں قید اور نظر بندی کے دوران بے مثال شاعری تخلیق کی۔ بعد میں لطف علی خان عاشق کے فرزند محمد علی خان ذاکر نے بھی شاعری شروع کی۔ محب اور ذاکر کو آج بھی بلتستان میں رثائی ادب کے حوالے سے انیس اور دبیر کا درجہ حاصل ہے۔ ان شعرا نے دیگر موضوعات کے علاوہ خصوصی طور پر بلتی ادب کے دامن کو نوحہ، مرثیہ اور منقبت کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ بعد میں حیدر خان حیدر، مراد خان اماچہ، بوا عباس، بوا جوہر، خدایار، سلطان شاہ، حاتم خان حاتم، ظفر علی خان ظفر، بوا اسفندیار، راجہ محمد علی شاہ بیدل، حسین، حسن، محمد علی خان واحد، بوا شجاع، غلام مہدی مرغوب سمیت بے شمار شعرا نے نوحوں سمیت دیگر کئی اصناف میں بلتی شاعری کے حسن میں اضافہ کیا ۔ آج بھی بلتستان میں راجہ محمد علی شاہ صبا، غلام حسن حسنی، غلام مہدی شاہد سمیت کئی شعرا شاندار بلتی شاعری تخلیق کر رہے ہیں۔

1948ء میں اہالیان بلتستان نے ڈوگرہ فوج سے آزادی حاصل کر لی اور بلتی شاعری کے ساتھ ساتھ رسوم و رواج نے ایک اور کروٹ لے لی۔ جنگ آزادی کے دوران بلتیوں کی بڑی تعداد ہندوستان کے کئی شہروں سے ہجرت کر کے بلتستان آئی۔ ان میں بعض نے سکردو میں عَلم، تعزیے اور ذوالجناح کے ماتمی دستے نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ بعض بزرگوں کے مطابق موضع سکمیدان کے سید محمد اور محمد جو ڈار و دیگر وہ ابتدائی لوگ تھے جنہوں نے بہت چھوٹی عمر میں 1951ء، 1952ء میں اردو نوحہ خوانی شروع کی، تاہم بعض اس سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یولتر کے غلام مہدی مرغوب وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے1951ء میں اردو ماتم کا سلسلہ شروع کیا۔ مرغوب بلتستان میں غزل گو شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں تاہم انہوں نے نوحے بھی لکھے جن میں سے بعض کو بڑی شہرت ملی۔ بعد میںسندوس کے محمد حسین شملوی نے بھی اردو نوحہ خوانی شروع کی۔ جنگ آزادی کے بعد موضع سکمیدان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص ذاکر علی جو ملک، جو کہ کافی عرصہ قبل سکردو سے شملہ جا چکے تھے، واپس آئے۔ پہلے انہوں نے بری ہاتو نامی جگہ پر ایک امام بارگاہ کی بنیاد رکھی اور مجلس کا سلسلہ شروع کیا، بعد میں 1952ء میں انہوں نے محلہ سکمیدان میں باقاعدہ اردو نوحہ خوانی شروع کی۔ ان کی اہلیہ بھی نوحہ خواں تھیں۔ ذاکر علی جو ملک کو بلتستان میں اردو ماتمی سلسلہ اور جدید ماتمی روایات کے بانی کا درجہ حاصل ہے۔ انہوں نے دستہ آل عبا  کے نام سے اردو ماتمی دستہ نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دور میں ان کے پڑھے ہوئے نوحے ”دین محمدی کے وارث واری ترے ہم جائیں، اولاد پیمبر کا دشمن زمانہ سارا سمیت کئی دیگر نوحے بہت معروف ہوئے جو آج تک لوگوں کو یاد ہیں۔ ان کے گھر میں یکم محرم سے عاشورہ تک خواتین کی جبکہ 14محرم سے چہلم امام حسین تک مرد مجالس منعقد کرنے لگے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

عابد ملک کے دور میں مقامی شعرا نے نوحے میں نئے تجربات کیے اور آج نوحے کی شاعری کے حوالے سے بلتستان کو خاص مقام حاصل ہے۔ بعض ناقدین کے مطابق بلتستان میں اہل زبان کے پائے کے اردو نوحے تخلیق ہو رہے ہیں۔ آج سکردو کی تمام ماتمی انجمنیں اپنی کیسٹیں اور سی ڈیز ریلیز کرتی ہیں جن میں سال بہ سال نئے اور منفرد نوحے شامل کیے جاتے ہیں۔ عابد ملک کا بیٹا الطاف ملک ان دنوں نو عمر ہیں لیکن اپنی خاندانی راویت کو زندہ رکھنے کے لیے دستہ آل عبا میں نوحہ خوانی کرتے ہیں۔ ذاکر علی جو مرحوم کی دونوں بیٹیاں بھی نوحہ خواں ہیں۔ ایک عرصے تک دونوں بہنیں اپنے گھر میں ہونے والی مجالس میں اردو بلتی نوحے پڑھتی تھیں اور آج ان کی دیکھا دیکھی بہت ساری خواتین اس میدان میں آگئی ہیں۔ ان کے چھوٹے فرزند عاشق ملک اس وقت سکردو میں ایک ماتمی دستہ ”دستہ حیدریہ میں نوحہ خوانی کرتے ہیں جہاں ان کے بعض بیٹے بھی ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ شمسی مہینہ اسد میں سکردو میں خصوصی عاشورہ منایا جاتا ہے جس میں ملک بھر سے کم و بیش ایک لاکھ سے زائد عزادار شرکت کرتے ہیں اور اس ماتمی اجتماع کو جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ماتمی اجتماع قرار دیا جا تا ہے۔

بلتستان میں شروع میں آداب مجالس ایرانی طرز کے تھے، بعد میں ان میں کشمیری روایات بھی شامل ہو گئیں۔ بلتی مجالس کی روایات کے مطابق مجلس کے آغاز سے پہلے عزا خانے کے اوپر کی طرف ممبر کے گرد ایک دائرہ بنا کر علما، ذاکرین اور نوحہ خوانوں کے علاوہ بزرگوں کو بٹھادیا جاتا ہے۔ ان کے پیچھے باقی لوگ ترتیب وار بیٹھ جاتے ہیں۔ مجلس کے آغاز کے ساتھ ہی تمام شرکا اپنی ٹوپیاں اتار دیتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے سروں پر چادریں ڈال لیتے ہیں، جس کے بعد مرثیہ خوان (بلتی زبان میں) پہلے دومصرے بیٹھ کر پھر کھڑے ہو کر مرثیہ کے باقی شعر مخصوص لے میں پڑھتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ نوحے فارسی زبان میں تھے، بعد میں مقامی شعرا نے بلتی نوحے لکھے جبکہ کشمیری نوحے بھی پڑھے جاتے تھے۔ بعض مقامات پر آج بھی کشمیری نوحے پڑھے جاتے ہیں۔ مجلس کے اختتام پر تبرکات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں عام طور پر پتلی روٹیوں(چپاتی) کے ساتھ حلوہ، گوشت اور مقامی روٹیاں کلچہ، اذق وغیرہ پیش کیے جاتے ہیں، ان کے ساتھ مقامی نمکین چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔ نویں محرم کو حضرت عباس  کی مجلس خصوصیت کے ساتھ منعقد کی جاتی ہے، اس رات مختلف امام بارگاہوں میں شب عاشور کی مجالس منعقد کی جاتی ہیں اور بعد میں ماتمی جلوس برآمد کیے جاتے ہیں اور یوں رات بھر ماتم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بعد میں کم و بیش تمام لوگ کالے لباس میں ملبوس ہو کر امام بارگاہوں کا رُخ کرتے ہیںجہاں مجالس کے بعد تعزیہ، عَلم اور ذوالجناح کے جلوس نکالے جاتے ہیں اور جلوس کے ہمراہ نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتے ہوئے سکردو شہر میں قائم شبیہ زیارت گاہ امام حسین  (قتل گاہ شریف) کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ شہر کی مختلف امام بارگاہوں سے نکلنے والے جلوس کے شرکا نماز ظہرین کی ادائیگی کے بعد دوبارہ ماتم کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ جلوس کے شرکا قتل گاہ شریف کی زیارت کے بعد واپس اپنی اپنی امام بارگاہوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں جہاں مجالس شام غریباں منعقد کی جاتی ہیں۔ شام غریباں کی مجالس میں معروف بلتی شاعر بوا محب کا لکھا ہوا نوحہ ”دنیا دی کھڑم ان پا بیا چس چی بیو خصوصیت کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ جلوس کے دوران اہل سنت مسلک سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ راستوں میں تبرکات کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی سبب بلتستان کا پر امن معاشرہ پورے ملک کے لیے مثال ہے۔ بلتستان میں پورے ملک کے برعکس سال میں دو دفعہ عاشورہ منایا جاتا ہے۔ پہلا محرم میں منایا جاتا ہے جبکہ دوسرا عاشورہ شمسی حساب سے ماہ اسد میں منایا جاتا ہے۔ اس میں بعض مقامات پر دس دن جبکہ بعض مقامات پر پانچ دن کی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ہر سال اگست کی پہلی تاریخ یا اسی کے آس پاس عاشورہ منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ واقعہ کربلا اسی موسم میں رونما ہوا تھا۔ اسد میں سکردو شہر میں 25 کے قریب ماتمی دستے برآمد ہوتے ہیں


درباره فضيلت زيارت حضرت معصومه (عليهاالسلام) روايات متعددّي از سوي امامان معصوم عليهم‌السلام صادر گرديده است که هم بر منزلت و قداست اين بانوي بزرگوار دلالت مي‌کند و هم پاداش زيارتش را بيان مي‌دارد؛ پاداشي بزرگ و بي مانند که همانند آن براي غير امام معصوم عليه‌السلام کم نظير است. اينک چند روايت نقل مي‌کنيم: 1. امام رضا عليه السلام فرمود: مَنْ زارَها فَلَهُ الْجَنَّةُ»(1)؛ کسي که فاطمه معصومه را زيارت کند بهشت براي او خواهد بود.» 2.

تبلیغات

محل تبلیغات شما

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها